Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 10

پرخہ صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ ہال کا دروازہ کُھلنے اور اُسامہ کے آنے کی آہٹ سے بھی انجان رہی۔ "کیسی ہیں آپ بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔"مردانہ بھاری آواز پر وہ ڈر کے اُچھلی ہاتھ میں پکڑا ریموٹ زمین بوس ہو چُکا تھا۔ "آئم صوری،لگتا ہے آپ ڈر گئیں۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کُچھ کنفیوز سا ہو کر بولا۔ "آپ کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس انجان آدمی سے کُچھ خوفزدہ ہوئی صندل بُوا اور علینہ کی تلاش میں ادھر اُدھر نگاہ دُوڑانے لگی اُسامہ اُسکا خوف بھانپ کر جلدی سے بولا۔ "میں مریام شاہ کا کزن اُسامہ ہوں،اُن کے ساتھ بزنس کرتا ہوں اُنکے کہنے پر آپ سے ملنے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے بتانے پر بھی وہ مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی تو اُسامہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ "مریام شاہ جب کسی پر اتنی جلدی اعتبار نہیں کرتا تو اُسکی بیوی کیسے کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ ہولے سے بڑبڑایا۔ "لگتا ہے آپکو یقین نہیں آ رہا،صندل بُوا مُجھے مل چُکی ہیں اُن سے پوچھ لیں یا علینہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔" "جی میم یہ سچ کہہ رہا،اُسامہ مریام سر کا کزن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"تبھی علینہ سیڑھیاں اُترتی اس طرف آئی جس پر اُسامہ نے شُکر کا سانس بھرا۔پرخہ کے تاثرات بھی نارمل ہوئے۔ "آپ اُنکے کس رشتے سے کزن ہیں۔۔۔۔۔۔"وہ اب پُورا انٹرویو کرنا چاہتی تھی اس لئے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی خُود بھی واپس اُسی جگہ پر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی تھی علینہ نیچے سے روموٹ پکڑ کر ٹیبل پر رکھتی کچن کی طرف چلی گئی۔ "میں اُنکی خالہ کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کے بتانے پر وہ سر ہلا گئی اور آدھے گھنٹے بعد جب صندل بُوا دونوں کو لنچ کا کہنے آئیں تو دونوں کافی بے تکلف ہو چُکے تھے۔ "بھائی آپ بھی آؤ نہ،لنچ ساتھ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔"پرخہ کی بات پر اُسامہ سر نفی میں ہلاتا جلدی سے کھڑا ہو گیا۔ "نہیں بھابھی آپ لنچ کریں مُجھے بُھوک نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیوں بُھوک نہیں پلیز آئیں نہ بہن بھی بنایا ہے اور بہن کی بات بھی نہیں مان رہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسرار کرنے لگی جس پر وہ بے بسی سے دیکھ کر رہ گیا۔ "آپ شاید ابھی اپنے شوہر سے اچھی طرح واقف نہیں ہوئیں اس لیے ایسا کہہ رہی ہیں،آپ نے تو بھائی مان لیا پر وہ مُجھے سالہ سمجھ کر بھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیا مطلب،وہ کیوں کُچھ کہے گئے۔۔۔۔۔۔۔"وہ سمجھی نہ تو پوچھ بیٹھی۔ "کُچھ نہیں مُجھے بہت ضروری کام یاد آ گیا ہے میں چلتا ہوں پھر مُلاقات ہوگی بائے بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ تیزی سے بولتا باہر کو بھاگا کہ یہ روک نہ لے جبکہ پرخہ اسے نہ سمجھی سے دیکھتی کچن میں چلی گئی۔ "مریام شاہ تو اتنا باتونی نہیں مگر اُنکی وائف تو اُف،کان کھائے گی اُنکے۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ باہر لان میں کھڑی علینہ سے بولا جس پر وہ مُسکرادی کیونکہ اتنے دنوں سے وہ بھی اسی طرح اس کے لا تعداد سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ "لیکن ایک بات تو ماننی پڑے گی میم بہت زیادہ کیوٹ ہیں۔۔۔۔۔۔۔"علینہ کو وہ بہت پسند آئی تھی۔ "میرے خیال میں یہاں تو تُمہارے سر کو میری آواز نہیں جائے گی اس لئے میں بھی تعریف کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ ٹیرس پر لگے کیمرے کی طرف دیکھ کر علینہ سے شرارت سے بولا جس پر وہ ہنس دی۔ "اب تُمہیں کیا ڈر،میم تو تُمہاری بہن بن چُکی ہیں۔۔۔۔۔۔۔" "کیا کروں چھوٹے دل کا ہوں،اتنے خطرناک بہنوئی سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔"وہ مُسکرایا "سر کب آئیں گئے۔۔۔۔۔۔۔" "مریام سے بات ہوئی تھی میری شاید رات تک آ جائے۔۔۔۔۔۔۔" "اورجونیجو۔۔۔۔۔" "جونیجو حویلی چلا گیا واپس،اوکے پھر میں چلتا ہوں آفس میں کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تو علینہ نے بھی اپنے قدم واپسی کو موڑے۔

"__________________________________"

بلوچ اور راٹھور آج حاکم کے حُکم پر اُسکی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے تھے جو کہ شہر سے دُور ایک قصبے میں واقع خستہ حال سکول کی بلڈنگ تھی دونوں علیدہ علیدہ آئے تھے اب وہاں بیٹھ کر حاکم کا انتظار کر رہے تھے۔ "مُجھے آج صرف مریام شاہ کی موت کا پروانہ لے کر جانا ہے یہاں سے راٹھور،کسی بھی طرح سے پر مُجھے بس اُسکی موت چاہیے ویسی دردناک موت جیسی اُس نے میرے بیٹے کو دی،بلکل اُسی طرح جیسے اُسکی ماں اور پھوپھی کو آج سے بارہ سال پہلے میں نے موت کے گھاٹ اُتارا تھا سب کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کے لہجے میں مریام شاہ کے کاری وار کی بُلبلاہٹ تھی آخر اُس نے دی بھی تو گہری چوٹ تھی جسکا ذخم ابھی تک بلوچ کو جُھلسا رہا تھا۔ "جو بھی اب کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا بلوچ،تُمہیں سب سے پہلے خُود کو شانت رکھنا پڑے گا ورنہ یہ نہ ہو تُمہارا غُصہ ایسی غلطی کر دے جسکا خمیازہ ہم تینوں کو بُھگتنا پڑے،موت تو اُسکی واجب ہو گئی اب۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے لہجے میں بھی دبہ دبہ غُصہ تھا تبھی دونوں دروازے کی طرف متوجہ ہوئے جہاں حاکم اندر داخل ہوا تھا اُس نے اپنا چہرہ ماسک میں چُھپایا ہوا تھا۔ "بہت افسوس ہوا تُمہارے بیٹے کا بلوچ،پر اس سے بھی زیادہ افسوس مُجھے تم دونوں کی عقل پر ہو رہا ہے کہ مریام شاہ تُم لوگوں کو مات پہ مات دئیے چلا جا رہا ہے اور تُم لوگ بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔"حاکم کی حالت بھی انسے کُچھ مُختلف نہ تھی آخر کو وہ بھی مریام شاہ کا ڈسا ہوا تھا۔ "تو اور کیا کریں،اُسکی ہر چال کامیاب ہو رہی ہے اور ہماری ہر گیم برباد،مُجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی آخر اُسے ہمارے ہر ارادے کا پتہ کیسے چل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اُسکا کوئی آدمی ہم تینوں کے درمیان موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"حاکم کی بات پر دونوں چونکے۔ "مطلب،ہم تینوں کے درمیان کیسے۔۔۔۔۔؟بلوچ نے کُچھ حیرانی سے دریافت کیا۔ "کسی نہ کسی رُوپ میں وہ آس پاس ہی ہے،جو تم دونوں کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے،اب یہ پتہ لگانا تم دونوں کا کام ہے کہ کس کے آس پاس رہ کر وہ سب جان رہا ہے راٹھور کے یا بلوچ کے،کیونکہ حاکم تک کوئی مائی کا لال پہنچ ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔"حاکم نے دونوں پر ایک جتاتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ "کون ہو سکتا ہے میرے پاس تو سب اعتماد کے آدمی ہیں۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ پرسوچ انداز میں بولا۔ "یہ تُمہارا کام ہے بلوچ اُس بندے کو تلاش کرنا،تُم خُود سوچو اُس رات ڈرگز سپلائی کرنے تھے یہ ہم تینوں جانتے تھے تو پھر مریام شاہ کیسے وہاں تک پہنچ گیا،دن دہاڑے ایک گیم کر کے مریام شاہ اپنی بیوی کو لے گیا تُمہاری لال حویلی میں سے جہاں تُم کہتے ہو کہ کوئی پتہ بھی تُمہاری اجازت کے بغیر ہل نہیں سکتا،تُمہاری ہی لال حویلی میں تُمہارے ہونے والے داماد کو مار دیا گیا،لڑکیاں افغانستان اسمنگلنگ کرنی تھیں یہ بھی بس ہم تینوں جانتے تھے پھر وہ کیسے اُس ٹھکانے پر پہنچ گیا بلکہ تُمہارے بیٹے کو بھی مار دیا آخر کوئی تو ہے جو سب اس تک پہنچا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔" حاکم ہر نُقطے کا گہرائی سے جائزہ لیتا انکے زہن پر پڑے پردے ہٹا گیا۔ "بلکل ٹھیک کہہ رہا ہے حاکم،جیسے کہ نتاشا خان تُمہاری منظور نظر کا اُسی رات غائب ہونا جس رات تُمہیں اُسکا مریام شاہ کے ساتھ ملنے کا پتہ چلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے دماغ نے بھی جیسے کام کرنا شُروع کر دیا تھا۔ "مطلب وہ تُم دونوں کے نہیں بلکہ میرے آس پاس ہے۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ بھی جیسے اصل نُقطے تک پہنچ گیا تھا۔ "پر وہ تلاش کیسے کریں ہم کیونکہ اُسکا زیادہ دیر بلوچ کے آس پاس رہنا ہمارا پردہ بھی اُس کے سامنے فاش کر سکتا ہے حاکم۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کے لہجے میں تشویش کے رنگ اُبھرے جن پر بلوچ بھی سر ہلا گیا۔ "ہاں حاکم اب اُسکا ہمارے درمیاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔۔۔۔۔۔۔" "سوچتا ہوں میں،تُم لوگ اب واپس جاؤ،یہاں زیادہ دیر رُکنا ٹھیک نہیں ہوگا ہمارے لیے۔۔۔۔۔۔۔"حاکم کہہ کر دروازے کی طرف مُڑا تو وہ دونوں بھی الگ الگ دروازے سے نکلتے اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھے۔

"__________________________________"

اُسے گھر پہنچتے پہنچتے گیارہ بچ چُکے تھے وہ سیڑھیاں چڑھتا ساتھ کف بھی فولڈ کر رہا تھا اپنے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولتا اندر داخل ہوا اور اُسی آہستگی سے دروازہ بند بھی کر دیا ایک نظر بیڈ پر پُرسکون سُوئی پرخہ پر ڈالی وارڈرب سے نائٹ ڈریس نکالتا واش رُوم میں گُھس گیا دس منٹ کے بعد نہا کر نکلا بالوں میں برش کرتا بیڈ پر آیا جہاں وہ میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی مریام شاہ نرمی سے اُس کے پہلو میں لیٹتا اُسکی طرف کروٹ بدل کر کہنی کے بل اونچا ہو کر اُسکے دلکش نقوش پر اپنی نظریں جما گیا وہ اُسکے اولین دنوں کا خواب اور اُسکی محبت تھی جسے اپنے والدین کے بعد دُنیا میں سب سے زیادہ چاہتا تھا جس کی خاطر وہ کُچھ بھی کر سکتا تھا اور اُس نے بلوچ سے آزاد کروانے کے لئے بہت سے حربے آزمائے تبھی جا کر اسے حاصل کر پایا تھا مریام شاہ نے جُھک کر اُسکی پیشانی پر اپنے لب رکھے اُسے اپنے حصار میں لیتا آنکھیں موند گیا۔ پرخہ کی جب صُبح آنکھ کُھلی خُود کو کسی کے حصار میں پاکر چونکی مگر جب آنکھیں کھول کر مریام شاہ کے خوابیدہ وجود کو دیکھا تو چہرے پر مُسکراہٹ کے پُھول کھل اُٹھے وہ اس پر بازو رکھے اسکے بہت قریب تھا اُسکا دل چاہا ہاتھ بڑھا کر اُسکے چہرے کو چُھو کر اُسکو محسوس کرے مگر شرم و جھجک سے اپنی خواہش کو دل میں ہی دبا لیا مگر آنکھوں کے راستے اُس کے ایک ایک نقوش کو دل میں اُتارنے لگی جو اُسکی سوچ سے بھی زیادہ خُوبصورت اور وجاہت کا مُنہ بولتا ثبوت تھا۔ "بس کرو،تُمہارے اس طرح دیکھنے سے میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"آنکھیں بند کئے ہی وہ بولا پرخہ کا حیرت سے مُنہ کھل گیا شاید وہ سوتا بھی چونکنا ہو کر تھا۔ "تُمہاری مُجھ پر نگاہ پڑے اور مُجھے اسکا احساس نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے مائے پریٹی وائف۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنی پُرشوق نگاہیں اسکے ہونق چہرے پر ٹکائیں۔ "آپ کب آئے،مُجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی جذبے لُٹاتی آنکھوں سے خائف ہوتی اسکا دھیان بٹانے کو بولی۔ "تُمہاری بے خبری کا اندازہ مُجھے آج سے چودہ دن پہلے اچھا خاصہ ہو گیا تھا کہ محترمہ جب سوتی ہیں تو ہر چیز سے بے خبر ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُٹھ کر بیڈ کی پُشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ہاتھ بڑھا کر اسے بھی اپنے قریب کر گیا جو ابھی تک اسکی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "اپنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا زور مت ڈالو تُم۔۔۔۔۔۔۔" "آپکو چودہ دن پہلے کیسے پتہ لگا۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی سُوئی ابھی وہی اٹکی تھی۔ "صندل بُوا نے بتایا تھا۔۔۔۔۔۔۔"وہ نرمی سے اسکے سلکی بالوں کو چُٹیا سے آزاد کروانے لگا۔ "آپ بُوا سے ملے پر میں نے سوچا تھا میں آپ سے مُلاقات کرواؤنگی،بُوا نے آپکو پہچانا کیسے۔۔۔۔۔۔؟" "دوبارہ پھر مُلاقات کر لیں گئے اُن سے۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا چہرہ اسکے بالوں میں چُھپانے لگا پرخہ کی دھڑکنوں کی رفتار تیز ہونے لگی۔ "شاہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ بمشکل بولی "بولو میری جان۔۔۔۔۔۔۔"وہ بن پئیے ہی بہک رہا تھا پرخہ اُسکا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے ٹھنڈی پڑنے لگی۔ "آپ..آپ نے بتایا نہیں میں کیسے یہاں آئی۔۔۔۔۔۔" "بتادُونگا جلدی بھی کیا ہے۔۔۔۔۔۔"وہ اپنے کام میں مصروف تھا جس پر پرخہ کی جان پر بن رہی تھی۔ "شاہ،ہمارا کمرہ کتنا بڑا ہے نہ۔۔۔۔۔۔"وہ شاید نہیں یقیناً بے تُکا بولی تھی جس پر مریام شاہ بے ساختہ ہنس دیا اور اُس کے خفت سے سُرخ چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ "مُجھے روکنے کو کوئی اس سے شاندار وجہ نہیں ملی آپکو مسز مریام۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی شرارتی مُسکان پر وہ خفیف سی ہو کر چہرہ جُھکا گئی۔ "ویل آج تو چھوڑ رہا ہوں بٹ اگلی بار مُجھے روکنا مت ورنہ انجام بُرا ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔"اُسکی وارننگ پر وہ سر نہ اُٹھا سکی بلکہ پورے وجود میں ایک برقی سی دوڑ گئی۔ "اُٹھو اب میں تُمہارے ساتھ ناشتہ کرنے آیا ہوں اُس کے بعد نکلنا ہے مُجھے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کمبل ہٹا کر اُٹھ کھڑا ہوا اُسکے جانے کا سُن کر اُسکا مُنہ لٹک گیا۔ "کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔" "جب قریب نہیں آنے دو گی تو مُجھے کیا ضرورت یہاں رُکنے کی۔۔۔۔۔۔۔"وارڈرب سے کپڑے نکالتا اُسے تنگ کرنے لگا۔ "میں نے کب روکا تھا شاہ۔۔۔۔۔۔"وہ روہانسی ہو کر بولی۔ "ارادہ تو تُمہارا وہی تھا مسز۔۔۔۔۔۔۔" "شاہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ رو دینے کو تھی۔ "جسٹ کڈنگ جانا،اب اُٹھو آج ناشتہ مُجھے تُمہارے ساتھ کرنا ہے،کل آونگا پھر تفصیل سے اس موضوع پر بات ہو گی آخر ابھی تو اس کمرے کی لمبائی چوڑائی پر بھی تو روشنی ڈالنی ہے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ آخر میں شرارتی لہجے میں بولتا اُسے ہسنے پر مجبور کر گیا مریام شاہ اُس پر مُسکراتی نظر ڈال کر کپڑے اُٹھاتا واش رُوم میں گُھس گیا۔

"__________________________________"

   0
0 Comments